50%

مہجوریت قرآن

( وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ) (فرقان: ۳۰)

اور (اس وقت) رسول اللہ (بارگاہ خداوندی میں) عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا۔

اس آیت مبارکہ کے صدر میں ”وقال الرسول“ ہے رسول سے مراد ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ ہیں اور ہجرانِ قرآن کا مطلب، قرآن کو چھوڑ دینا یا ترک کر دینا ہے، ”قَالَ“ فعل ماضی کا صیغہ ہے، یہاں اس کے معنی ”کہا“ بمعنی ماضی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ”کہے گا“ صحیح ہے کیونکہ قیامت ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کا صیغہ کیوں استعمال ہوا؟ اس کی وجہ بعد میں بیان کریں گے۔

آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب اس کائنات کی بساط سمیٹ لی جائے گی۔ قیامت (جو کہ برحق ہے) کا ہولناک واقعہ رونما ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ کی کرسی عدالت لگا دی جائے گی”لا حکم الا الله الواحد القهار“ کی صدا بلند ہو گی، ایسی عدالت جس میں ہر قسم کی دھونس، دھاندلی، جھوٹ، فریب، رشوت، بلیک میلنگة اثرورسوخ کا استعمال اور جھوٹی گواہی کا تصور بھی نہیں گا۔(۱)

اس میدان میں نفسا نفسی اور خوف ورجاء کا عجیب منظر ہو گا۔ ا میدان میں کچھ لوگ تو اپنے اعمال صالح اور نیکیوں کی بنا پر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے ہوئے وعدوں کے پیش نظر”انه لا تخلف المیعاد“ جنت میں داخل ہونے کی امید سے حاضر ہوں گے اور کچھ لوگو پر اپنے برے اعمال، نافرمانی، عصیان گری کی وجہ سے اپنے خالق کے کہتے ہوئے وعیدوں کی بناء پر غضب الہٰی میں مبتلا ہونے اور جہنم میں داخل ہونے کی صورت میں لرزہ جاری ہو گا۔ اس عدالت میں جہاں تمام مظلوموں کو اپنا حق فوراً ملنے کی مکمل ہوتی ہے، اس لئے ہر شخص اپنا کس دائر کرنا چاہے گا۔ کوئی کہے گا، میرے مالک فلاں شخص نے مجھے اپنی وراثت پدری محروم کیا تھا؟ کوئی کہے گا۔ اس نے مجھے ناحق قتل کیا تھا، کوئی کہے گا کہ فلاں شخص نے میرا گھر بار لوٹا تھا جو پر تو خود شاہد ہے۔

____________________

( ۱) تمام مخلوقات وہاں جمع ہو جائیں گی۔