قرآن کریم اور عامة الناس
علامہ اقبال فرماتے ہیں: والد بزرگوار نے میرے بچپن میں مجھ سے قرآن کے بارے ایک بات کی تھی جو میرے لئے ایک ناقابل فراموش درس بن گیا تھا۔ اور وہ با یہ تھی انہوں نے فرمایا بیٹا! ”تم قرآن کو اس طرح پڑھا کرو گویا وحی تمہارے اوپر ہی نازل ہوئی ہو“ حقیقت بھی یہی ہے قرآن کو اسی طرح ہی پڑھنا چاہیے اور عملاً اپنے آپ پر لاگو کرنا چاہیے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عام لوگوں کا قرآن کے ساتھ جو تعلق اور رابطہ ہے وہ یہ ہے کہ امت اسلامیہ کے بہت کم لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور کچھ لوگ تلاوت کرتے بھی ہیں تو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے اور اگر سمجھتے ہیں تو عمل کے مرحلے میں آکر چند فیصد ہی رہ جاتے ہیں۔
( يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ) (الجاثیة: ۸)
”وہ اللہ کی آیتوں کو جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں سن تو لیتا ہے پھر تکبر کے ساتھ ضد کرتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں۔ سو اسے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے“
اگرچہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے لیکن مسلمان بھی اس کے مصداق بن سکتے ہیں جو یا تو قرآن پڑھتے یا سنتے ہی نہیں اور اگر سنتے بھی ہیں تو عمل نہیں کرتے۔