مجاز القرآن
بعض ” مجاز“ کی لغت سے یہ مفہوم لیتے ہیں کہ معمر بن مثنیٰ کے کتاب علم بلاغت کے موضوع پر ہے حالانکہ متن کتاب اور مصنف کے انداز تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے الفاظ کے معانی اور لغات کے مفاہم بیان کرنے کی کوشش کی ہے اسکی نظر الفاظ کی تفسیر پر تھی نہ کہ بلاغت وغیرہ کے مسائل بیان کرنے پر سید احمد صفر غریب القرآن ،معافی القرآن اور مجاز القرآن کو ایک دوسرے کے مترادف قرار دیتے ہیں کہ ابو عبیدہ نے کوشش کی ہے کہ شعراء عرب کے اشعار کا حوالہ اورمستعمل لغات سے استشہاد کر کے قرآن کے الفاظ کے معانی بیان کرے
مجاز القران لکھنے کی وجہ پر غور و فکر کرنے پر حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک بلاغت کی کتاب نہیں ہے اور اسے ایسا سمجھنے والے غلطی پر ہیں
ابراہیم بن اسماعیل کا تب،فضل بن ربیع کی محفل میں ابو عبیدہ کی موجودگی میں ۱۸۸ ہجری میں آیت( طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّیاطِینِ ) کا معنی غلط بیان کرتے ہیں ابو عبیدہ بصرہ واپسی پر کتاب مجاز القرآن تحریر کرتے ہیں اور الفاظ کے استعمال اور لغات کے معانی کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی کتاب کو ابراہیم بن اسماعیل کاتب کی ” امثال “ کے لئے راہنمائی قرار دیتے ہیں
متن کتاب کی پیشِ نظر ہمار دعویٰ کی تائید ہو جاتی ہے اور کتاب مجاز القرآن ک مقدمہ ک نیچ عیناًنقل کی جاتی ہ تاکہ کتاب ک اندازِ تحریر س زیادہ س زیادہ آگاہی حاصل ہو جائ ” القرآن اسم کتاب الله خاصته، ولایسمی، به شئی من سائر الکتاب غیره وانمّا سِعیّ قرآناً لا نه یجمع السور فیضما، و تفسیر ذلک فی آیة من القران قاِلَ اللهُ جل ثناؤه ! اِنَّ عَلَیناَ جمه وَ قرآنه“
مجازه ! تالیف بعضه الی بعض،ثم قال فَإذٰ اقَر اُناٰهُ فاَتَّبِع قُرآنَه
مجازه فاذالفنامنه شیئاً، فضمناه الیک فخزبه،واعل به و ضمه الیک وفی آیة اخریٰ فاذاقرآت القرآن مجازه! اذاتلوت بعضه فی اثر بعضِ ، حتّیٰ یحتمع و ینضم بعضه الی بعض، ومضاه یصیوالی معنی التالیف والجمع