50%

وجوہ القرآن

جب ایک لفظ مختلف مواقع پر مختلف معانی میں استعمال ہو تو اس کے ہر ایک معنی کو ” وجہ “ اور تمام معانی کو ” وجوہ“ کہتے ہیں مثلاً لفظ ” فتح “ پانچ مختلف مواقع پر پانچ معانی میں استعمال ہوتا ہے لفظ فتح یا اس کے مشتقات کے جو پانچ تعبیریں ہیں انہیں ” وجوہ“ کہتے ہیں چونکہ اکثر الفاظ مختلف معانی میں استعمال ہوتے ہیں لہذا انہیں ” وجوہ القرآن “ کے نام سے یاد کیا کرتے ہیں

۱ ۔فتح بمعنی ” قیامت کا دن“

( قَلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لا یَنْفَعُ الَّذِینَ کفَرُوا إیْمانُهُمْ )

۲ ۔فتح بمعنی ”انصاف کرنا“

( قُل یجمعُ بَینَنَا رَبُّنَاثُمَّ یفتح بُینَنٰا بالحق )

۳ ۔فتح بمعنی”بھیجنا“

( حَتّی اِذَا فتحت یَا جُوجُ وَمَا جُوجَ )

۴ ۔فتح بمعنی”کھولنا“

( حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا )

۵ ۔فتح بمعنی” مدد کرنا“

( فَانِ کَانَ لَکُم فتح مِنَ اللهِ )

پس ” وجوہ القرآن“ نے مراد ہے قرآنی الفاظ میں ہر ایک کا مختلف اور انکی مختلف تعابیر وجوہ القرآن پر لکھی جانے والی کتاب (سیوطی اور زرکشی کے بقول) مقاتل بن سلیمان (متوفی، ۱۵۰ ہجری) کی ” الوجوہ والنظائر“ ہے اس کے بعد دوسروں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں اور بعض نے جیسے زرکشی اور سیوطی نے اُسے اپنی کتاب علوم القرآن ہی کا ایک باب قرار دیا ہے کے سیوطی وجوہ اور نظائر کی معرفت میں ، نوع نمبر ۳۹ میں کہتے ہیں کہ میں نے اس فن میں ایک کتاب بنام ” معترک الاقرآن فی مشترک القرآن “ لکھی ہے