30%

2) خوف و ھراس

قرآن کریم منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کے سلسلہ میں دوسری صفت خوف و ھراس کو بتا رہا ہے، قرآن ان کو بے حد درجہ ھراساں و خوف زدہ بیان کررھا ہے، اصول کی بنا پر شجاعت و شھامت، خوف وحشت کا ریشہ ایمان ہوتا ہے، جہاں ایمان کا وجود ہے دلیری و شجاعت کا بھی وجود ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

((لایکون المومن جبانا)) (188)

مومن بزدل و خائف نہیں ہوتا ہے۔

قرآن مومنین کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے ان کی شجاعت اور مادی قدرت و قوت سے خوف زدہ نہ ہونے کی تصریح کر رہا ہے۔

(…… وانّ الله لا یضیع اجر المؤمنین الذین استجابوا لِلّٰه والرسول من بعد مَا اصابهم القرح للّذین احسنوا منهم واتقوا اجر عظیم الذین قال لهم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایمانا و قالوا حسبنا لله و نعم الوکیل) (189)

خداوند عالم صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا (خواہ شھیدوں کے اجر کو اور نہ ہی مجاہدوں کے اجر کو جو شھید نہیں ہوئے ہیں) یہ صاحبان ایمان ہیں جنھوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کھا (میدان احد کے زخم بہبود بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حمراء الاسد میدان کی طرف حرکت کرنے لگے) ان کے نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نھایت درجہ عظیم اجر ہے، یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لھذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ھوگیا اور انھوں نے کہا کہ ھمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ھمارا ذمہ دار ہے۔

----------------

188. بحار الانوار، ج67، ص364۔

189. سورہ آل عمران/ 173، 171۔