30%

جس وقت ابوبکر نے امور خلافت کو اپنے ھاتھ میں لیا ابوسفیان چاھتا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا ھوجائے اور اسی غرض کے تحت مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے حمایت و مساعدت کی پیشکش کرتا ہے لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کو اچھے طریقہ سے پہچانتے تھے، پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا: تم اور حق کے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ہی سے اسلام و مسلمان کے دشمن تھے آپ نے اس کی منافقانہ بیعت کے دراز شدہ دست کو رد کرتے ہوئے چھرہ کو موڑ لیا(31)

بھر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوسفیان ان افراد میں سے تھا جن کے جسم و روح، اسلام سے بیگانے تھے اور صرف اسلام کا اظھار کرتا تھا۔

2۔ اخلاقی نفاق

نفاق کا دوسرا عنوان اور معنی جو بعض روایات میں استعمال ہوا ہے اخلاقی نفاق ہے، یعنی دینداری کا نعرہ بلند کرنا، لیکن دین کے قانون پر عمل نہ کرنا، اس کو اخلاقی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے(32) البتہ اخلاقی نفاق کبھی فردی اور کبھی اجتماعی پہلوؤں میں رونما ہوتا ہے، وہ فرد جو اسلام کے فردی احکام و قوانین اور اس کی حیثیت کو پامال کر رہا ہو وہ فردی اخلاقی نفاق میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو معاشرے کے حقوق و اجتماعی احکام کو جیسا کہ اسلام نے حکم دیا ہے نہ بجالاتا ہو تو، وہ نفاق اخلاق اجتماعی سے دوچار ہے۔

فردی، نفاق اخلاق کی چند قسمیں، ائمہ حضرات کی احادیث کے ذریعہ پیش کی جارھی ہیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

---------------

31. تفسیر سورہ توبہ و منافقون۔

32. یقیناً اخلاق کی یہ حالتیں، رذائل کے اجزا میں سے ہے لیکن یہ کہ عادت رذیلہ روایات میں نفاق پر اطلاق ہوتی ہے یا نہیں یہ وہ موضوع ہے جسے اجاگر ہونا چاھئے علامہ مجلسی بحار الانوار ج72 ص108 میں اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں کہ روایات میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، اصول کافی ج2 میں ایک باب صفت النفاق و المنافق ہے اس باب کی اکثر احادیث انفرادی، اجتماعی اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہے یہ خود دلیل ہے کہ نفاق روایات میں اس خاص معنی (نفاق اخلاقی) جس کا میں نے اشارہ کیا ہے استعمال ہوا ہے۔