مشھور نظریہ کے مطابق نفاق کا آغاز مدینہ ہے، اور نفاق کا وجود، حکومت و قدرت سے خوف و ھراس کی بنا پر ہوتا ہے، اس لئے کہ مکہ کے مسلمانوں میں قدرت و طاقت والے تھے ہی نہیں، لھذا وھاں نفاق کا وجود میں آنا بے معنی تھا، صرف مدینہ میں مسلمان صاحب قدرت و حکومت تھے لھذا نفاق کا مبداء مدینہ ہے۔
لیکن نفاق کی بنیاد صرف حکومت سے خوف و وحشت کی بنا پر جو اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اسلام میں منصب و قدرت کے حصول کی طمع بھی نفاق کے وجود میں آنے کا عامل ھوسکتی ہے، لھذا، نفاق کی دو قسم ھونی چاھئے:
1۔ نفاقِ خوف: ان افراد کا نفاق جو اسلام کی قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ھوکر اظھار اسلام کرتے ہوئے اسلام کے خلاف کام کیا کرتے تھے۔
2۔ نفاقِ طمع: ان افراد کا نفاق جو اس لالچ میں اسلام کا دم بھرتے تھے کہ اگر ایک روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ہوا، تو اس کی زعامت و مناصب پر قابض ہوجائیں یا اس کے حصّہ دار بن جائیں۔
نفاق بر بناء خوف کا سر چشمہ مدینہ ہے، اس لئے کہ اہل اسلام نے قدرت و اقتدار کی باگ ڈور مدینہ میں حاصل کیا۔
لیکن نفق بر بناء طمع و حرص کا مبداء و عنصر مکہ ہونا چاھئے، عقل و فکر کی بنا پر بعید نہیں ہے کہ بعض افراد روز بروز اسلام کی ترقی، اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے باجود اسلام کی کامیابی، مکرر رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسلام کے عالمی ہونے والی خوش خبری وغیرہ کو دیکھتے ہوئے دور اندیش ھوں، کہ آج کا ضعیف اسلام کل قوت و طاقت میں تبدیل ھوجائے گا، اسی دور اندیشی و طمع کی بنا پر اسلام لائے ھوں، تاکہ آئندہ اپنے اسلام کے ذریعہ اسلام کے منصب و قدرت کے حق دار بن جائیں۔