قرآن کریم نے اغیار کی شناخت کے سلسلہ میں دوسری جو صفت بیان کی ہے وہ اغیار کا مسلمانوں کے سلسلہ میں خیر خواہ نہ ہونا ہے، وہ اپنی بد خصلت اور پست فطرت خمیر کی بنا پر ہمیشہ اسلام کے افکار و نظام کے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں وہ مومنین کے سلسلہ میں صرف عدم خیر خواھی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ صاحبان ایمان کی آسائش و آرام، امن و سکون، فتح و کامرانی کو ایک لمحے کے لئے تحمل بھی نہیں کرسکتے۔
(ما یودّ الذین کرو من اهل الکتاب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم) ) 58 (
کافر اہل کتاب (یھود و نصاری) اور عام مشرکین یہ نہیں چاہتے کہ تمھارے اوپر پروردگار کی طرف سے کوئی خیر و برکت نازل ھو۔
وہ مومنین کے سلسلہ میں صرف خیر و برکت کے عدم نزول کی خواہش ہی نہیں رکھتے بلکہ مومنین کی سختی و پریشانی کو دیکھ کر خوشحال اور ایمان والوں کی خوشی کو دیکھ کر غمگین ھوتے ہیں۔
(ان تمسسکم حسنة تسؤهم وان تصبکم سیئة یفرحوا بها) ) 59 (
اگر تمھیں ذرا بھی خیر و نیکی ملے تو انھیں برا لگے گا اور اگر تمھیں تکلیف پھونچےتو وہ خوش ہوں گے۔
------------------
58. سورہ بقرہ/ 105۔
59. سورہ آل عمران/ 120۔