دشمن و اغیار کا اپنی کامیابی و موفقیت کے لئے مسلمانوں کو غفلت و بے خبری کے جال میں پھنسائے رکھنا ہے، وہ چاہتے یہ ہیں کہ ایسی فضا و حالات وجود میں لائے جائیں جس کی بنا پر صاحبان ایمان اپنی قوت و طاقت کی صلاحیت و موقف سے غفلت ورزی کا شکار ہوجائیں تاکہ وہ ان پر قابض و کامران ھوسکیں، ان کی دائمی کوشش رھتی ہے کہ مسلمان کی نظر میں ان کی اقتصادی طاقت فوجی قدرت، ثمرۂ وحدت اور دین و دنیا کی شان و شوکت کو بے وقعت پیش کیا جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ غفلت و بے خبری کے دام میں الجھے رھیں جس کے نتیجہ میں اغیار کی فتح و ظفر کی زمین ھموار ھوسکے۔
(ودّا لذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلة واحدة) ) 61 (
کفار کی خواہش یھی ہے کہ تم اپنے ساز و سامان اور اسلحہ سے غافل ھوجاؤ تو یہ یکبارگی تم پر حملہ کردیں۔
مذکورہ آیت میں اگر چہ اسلحہ و ساز و سامان کا ذکر ہے لیکن آیت کی دلالت صرف اقتصادی ساز و سامان وجنگی اسلحہ جات پر منحصر نہیں ہے بلکہ تمام وہ وسائل و عوامل جو مسلمانوں کے لئے عزت و شرف قوت و طاقت کا باعث ہو آیت کی غرض وغایت ہے، اس لئے کہ دشمن کا ھدف ان وسائل سے غفلت و لاپرواھی میں مبتلا کرنا ہے تاکہ تسلط کے مواقع فراھم ھوسکیں۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے عہد نامہ میں فرماتے ہیں:
((الحذر کل الحذر من عدوک بعد صلحه فان العدو ربما قارب لیتغفل فخذ با لحزم و اتهم فی ذلک حسن الظن)) ) 62 (
صلح کے بعد دشمن کی طرف سے قطعاً مکمل طور پر ھوشیار رھنا کہ کبھی کبھی وہ تمہیں غفلت میں ڈالنے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا چاھیں گے لھذا اس سلسلہ میں مکمل ھوشیار رھنا، اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا۔
--------------
61. سورہ نساء/ 102۔
62. نھج البلاغہ، نامہ/ 53۔