قرآن کریم کی روشنی میں اغیار کی ایک دوسری صفت، مومنین کی ساتھ سخت طرز عمل و سلوک کا انجام دینا ہے، یہ عہد و پیمان کی پابندی اور دوستی کا اظھار کرتے ہوئے مومنین کو فریب دینا چاہتے ہیں، ان کے عہد و پیمان، قول و قرار پر اعتماد کرنا منطقی عمل نہیں، جب ناتواں اور کمزور ہوجاتے ہیں تو حقوق بشر اور اخلاق انسانی کی بات کرتے ہیں، لیکن جب قوی و مسلط ہوجاتے ہیں، تمام حقوقِ اور انسانی اخلاق کو پامال کرتے ہیں، عہد و پیمان، قول و قرار، حقوق و اصول بشریت، عظمت انسانیت، سب ہتکنڈے ہیں تاکہ اپنے منافع کو حاصل کرسکیں، منظور نظر منافع کے حصول کے بعد ان قوانین و عہد و پیمان کی کوئی وقعت نہیں رھتی ہے۔
(کیف وان یظهروا علیکم لا یرقبوا فیکم الّا ولا ذمّة یرضونکم بأفواههم و تأبی قلوبهم و اکثرهم فاسقون) ) 63 (
ان کے ساتھ کس طرح رعایت کی جائے، جب کہ یہ تم پر غالب آجائیں گے تو نہ کسی ھمسایگی و قرابتداری کی رعایت کریں گے اور نہ ہی کسی عہد و پیمان کا لحاظ کریں گے یہ تو صرف زبانی تم کو خوش کر رہے ہیں، ورنہ ان کا دل قطعی منکر ہے اور ان کی اکثریت فاسق و بد عہد ہے۔
اغیار کی ایک اور صفت، تجاوز گری و تخریب کاری ہے، جب تک ان کے اھداف پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے فتنہ گری و خراب کاری کا بازار گرم کئے رہتے ہیں۔
---------------
63. سورہ توبہ/ 8۔