قرآن کی نظر کے مطابق منافقین کی سیاسی خصائص میں سے ایک موقع پرست ہونا ہے، ان کے لئے صرف اپنے منافع اھمیت کے حامل ھوتے ہیں، نفاق کی طرف مائل ہونے کی وجہ بھی یھی ہے، موقع پرستی کا آشکار و ظاہر مصداق کہ جس کے چند مورد کی قرآن نے تصریح کی ہے۔
غنائم کو حاصل کرنے اور میدان نبرد و جنگ سے فرار کرنے میں موقع پرستی کے ماھر تھے، جس وقت مسلمین کامیاب ھوتے تھے بلا فاصلہ خود کو مسلمانوں کی صف میں پھنچا دیتے تھے تاکہ جنگ کے غنائم سے بھرہ مند ھوسکیں اور جس وقت مسلمان شکست وناکامی سے دوچار ھوتے تھے، فوراً اسلام کے دشمنوں سے کہتے تھے، کیا تم سے نہیں کھا تھا کہ اسلامی حکومت نام نھاد حکومت ہے، اور تم کامیاب ھوگے، ھمارا حصہ حوالہ کردو، قرآن مجید منافقین کی موقع پرستیں کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے۔
الذین یتربصون بکم فان کان لکم فتح من الله قالوا الم نکن معکم وان کان للکافرین نصیب قالوا الم نستحوذ علیکم و نمنعکم من المؤمنین فالله یحکم بینکم یوم القیامة و لن یجعل الله للکافرین علی المومنین سبیلا) (125)
اور یہ منافقین تمھارے حالات کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ تمھیں خدا کی طرف سے فتح نصیب ہو تو کہیں کیا ہم تمھارے ساتھ نہیں تھے اور اگر کفار کو کوئی حصہ مل جائے گا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تم پر غالب نہیں آگئے تھے اور تمھیں مومنین سے بچا نہیں لیا تھا، تو اب خدا ہی قیامت کے دن تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور خدا کفار کے لئے صاحبان ایمان کے خلاف کوئی راہ نہیں دے سکتا۔
---------------
125. سورہ نساء/ 141، نکتہ قابل توجہ یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کی کامیابی کو فتح سے تعبیر کیا گیا ہے جب کہ کفار کی کامیابی کو نصیب سے تعبیر کیا گیا، اس بات کی طرف اشارہ ہے اگر کفار کو کامیابی ملے تو وہ وقتی اور محدود و پائدار نہیں ہے، لیکن دائمی فتح مومنین کے لئے ہے اس آیت کے ذیل میں اسی نکتہ کی تصریح ھورھی ہے کہ کفار مومنین پر مسلط نہیں ھوسکتے۔