حرف آغاز
عالم امکان کی سعادتمندی، آبادی، اور ترقی و تکامل کی خاطر اللہ نے کائنات کو تمام وسائل اور لوازمات سے مالا مال فرمایا وہ ذات یکتا ایسی ذات ہے کہ جس نے اپنی ذات کی تعریف اسطرح کی ہے والله هو الغنی الحمید جبکہ عالم امکان کی تعریف میں فرمایا' ' و انتم الفقرائ'' ایسی ذات کے بارے میں تمام اسلامی مکاتب فکر او رفلاسفر کا بالاتفاق یہ نظریہ ہے کہ وہ ذات تمام کمالات کا مجموعہ ہے جس میں کمی اور نقص کا تصور ناممکن ہے لہذا تمام کائناتی کمالات کا مجموعہ اورسرچشمہ ذات باری تعالی نظر آتا ہے، اس ذات سے ہٹ کر تصور کیا جائے تو یقینا احتیاج اور نیاز مندی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تب بھی تو اللہ نے قرآن مجید میں گذشتہ امتوں کے عبرت ناک حالات کو صاف لفظوں میں بیان کیا تاکہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ ہم جو کچھ کرنا چاہیںتو کرسکتے ہیں،اگر کوئی شخص اس خیال کی بنیاد پر قوم لوط ا ور قوم ثمود یا دیگر اقوام کی سیرت کو مشعل راہ قرار دے تو یقینا اللہ اس کو اسطرح کیفر کردار تک پہنچائے گا کہ جس طرح لوط اور ثمود وغیرہ کی قوم کو پہونچایا تھا، نیز اللہ نے فرعون اور قارون کے قصے کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا تاکہ بشر جس طرح فرعون نے قدرت کو قارون علم کو اپنی ذاتی کمال سمجھتے تھے۔ اسطرح دیگر انسان بھی کمالات کو اپنا ذاتی کمال نہ سمجھیں لہذا اگر کوئی عاقل اس طرح کا تصور کرے کہ تمام کمالات چاہے مادی ہوں یا معنوی ہماری زحمت اور ذاتی تربیت کا نتیجہ ہے اور اللہ تبارک وتعالی سے کوئی ربط نہیں ہے، تو اسکا حشر بھی وہی ہوگا جو فرعون اور قارون کوہواتھا۔