7%

ابن تیمیہ اور امت اسلامی کے درمیان شگاف:

یورپ میں اسلام کی ترقی اور اندلس کی شکست مغربی عیسائیوں کے لئے سخت تلخ اور ناگوار تھی یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ انتقام کی فکر میں رہے یہاں تک کہ پانچویں صدی ہجری کے آخر میں روم کے عیسائیوں کے رہبر یعنی پاپ نے مسلمانوں سے انتقام لینے کی خاطر لاکھوں فوجیوں کو یورپ سے فلسطین روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو قتلگاہ بنائیںیہیں سے ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو تقریباً دو سو سال (۴۸۹۔۶۹۰ھجری) تک جاری رہیں جس کے نتیجہ میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔

اُس زمانہ میں جبکہ مصر اور شام صلیبیوں سے جنگ میں مصروف تھے اُمت مسلمہ کو ایک اور طوفان کا سامنا کرنا پڑااور وہ چنگیز خان کی قیادت میں مغلوں کا حملہ تھا جس نے اسلامی آثار کو غارت ونابود کردیا۔

اس کے پچاس سال بعد (۶۵۶ھ ق) چنگیز خان کے نواسے ہلاکو خان کے دستور پر بغداد کے لوگوںکاقتل عام کیا گیا جس سے عباسی خلافت کا شیرازہ بکھر گیا اور پھر حلب و موصل پر وہی مصیبت آئی جوبغداد پر آچکی تھی۔

مشہور مورخ ابن اثیر لکھتا ہے: '' مغلوں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مصائب اس قدر سنگین تھے کہ مجھ میں ان کے لکھنے کی طاقت نہیں اے کاش! میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا. اے کاش! میں اس حادثے سے پہلے ہی مرگیا ہوتا اور اس دردناک مصیبت کو نہ دیکھتا''۔( ۱ )

____________________

(۱)ابن اثیر لکھتا ہے:''ذکرخروج التترالی بلاد الاسلام:لقد بقیت عدة سنین معرضا عن.