تکفیر بھی حلال و حرام کے مانند حکم شرعی ہے :
اولا:التکفیرحکم شرعی ، مدّده الی الله ورسوله ، فکما ان التحلیل والتحریم والایجاب الی الله ورسوله ، فکذلک التکفیر، ولیس کل ما وصف بالکفر من قول او فعل ، یکون کفرا اکبر مخرجاعن الملة .ولما کان مردّ حکم التکفیر الی الله ورسوله لم یجز ان نکفّر الا من دل الکتاب والسنة علی کفره دلالة واضحة ، فلا یکفی فی ذلک مجرد الشبهة والظن ، لما یترتب علی ذلک من الاحکام الخطیرة ، واذا کانت الحدود تدرء بالشبها ت ، مع ان ما یترتب علیها اقل مما یترتب علی التکفیر ، فالتکفیر اولی ان یدرء بالشبهات ؛ ولذلک حزر النبی من الحکم بالتکفیر علی شخص لیس بکافر ، فقال: '' ایّما امریء قال لاخیه: یا کافر ، فقد باء بها احدهما ، ان کان کما قال والا رجعت علیه ''.
۱۔ تکفیر ایک حکم شرعی ہے جس کا معیار خدا و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرف سے بیان ہونا چاہئے جس طرح حلال و حرام اور واجب کا خد اکی طرف سے بیان ہونا ضروری ہے ۔اور ضروری نہیں کہ قول و فعل میں ہر طرح کے کفر سے مراد کفر اکبر ہو جس سے انسان دین سے خارج ہو جاتا ہے ۔
جب کفر کا حکم خدا و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی جانب سے ہونا چاہئے تو پھر قرآن وسنت سے واضح دلیل کے بغیر کسی شخص کو کافر کہنا جائز نہیں ہے اور شک وا حتمال کی بناء پر کفر ثابت نہیں ہو تا اس لئے کہ اس پر بہت سخت احکام جاری ہوتے ہیں ۔
جب شبہ کے ہوتے ہوئے حدود جاری نہیں ہو سکتیں اگر چہ وہ تکفیر سے کمتر ہی کیوں نہ ہوں تو پھر شبہ کی صورت میں بدرجہ اولیٰ تکفیر کی حد جاری نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے کسی ایسے شخص کو تکفیر نہیں فرمائی ہے جو کافر نہ ہو اور فرمایا : جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کہے : اے کافر ! اگر اس نے درست کہا تو دوسرا شخص عذاب الٰہی میں مبتلا ہو جائے گا اور اگر جھوٹ بولا تو وہ عذاب خود اس کی طرف پلٹے گا ۔