محمد بن عبد الوہاب اور اسلامی اتحاد پر ضرب:
بارہویں صدی ہجری میں بانی و مروج افکار وہابیت محمدبن عبد الوہاب نے مسلمانوں کو انبیاء و اولیائے خدا سے توسل کے جرم میں مشرک قرار دے کر ان کے کفر کا فتویٰ دیا، ان کا خون مباح، قتل جائز اور ان کے مال کو غنیمت قراردے دیا. اس کے اس فتویٰ کے نتیجہ میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔
ابن تیمیہ کے افکار کی تجدید محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھوں تاریخی و سیاسی اعتبار سے سخت نامناسب حالات میں کی گئی. اس لئے کہ اس دور میں امت مسلمہ چاروں طرف سے صلیبی استعمار کے حملوں کا شکار بن چکی تھی اور اسلامی معاشرے کو سب سے زیادہ وحدت کلمہ کی ضرورت تھی۔
انگریز ہندوستان کا بہت زیادہ علاقہ مسلمانوں سے چھین کر تیموری مسلمانوں کی سلطنت کی شان و شوکت کو مٹا کر پنجاب، کابل اور خلیج فارس کے سواحل کا خواب دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ ایران کے جنوب و مغربی علاقے کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔
فرانسیسی نیپلن کی قیادت میں مصر، شام اور فلسطین پر زبردستی قبضہ کر کے دولت عثمانی کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ہندوستان میں اپنا اثر جمانے کی سوچ رہے تھے۔
تزاری روس جوکہ مشرقی روم کے مسیحی سزاروں کی جانشینی کا دعویٰ کر رہے تھے ایران اور دولت عثمانی پرپے در پے حملے کر کے اپنی حکومت کا دائرہ ایک طرف سے قسطنطنیہ و فلسطین اور دوسری طرف سے خلیج فارس تک وسیع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے. اس مقصد کے حصول کیلئے انھوں نے اپنی فوجی کاروائیوں میں سب سے پہلے ایران، دولت عثمانی اور قفقاز کو نشانہ بنا رکھا تھا۔
یہاں تک کہ امریکائی بھی شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک پر چشم طمع رکھے ہوئے لیبیا اور الجزائر کے شہروں پر گولہ باری کے ذریعے عالم اسلام میں نفوذ کی کوششیں کر رہے تھے۔
صربستان کے مسئلہ پر عثمانیوں اور اتریش کی جنگ اور ہالینڈ کے جنگی بحری بیڑوں کا برطانیہ کی مدد کر کے الجزائر کے دارالخلافہ کا فوجی محاصرہ کرنا بھی اسی بحرانی دور میں پیش آیا۔( ۱ )
____________________
(۱)وہابیت،مبانی فکری وکارنامہ عملی:۲۱