آیت اللہ العظمیٰ فاضل لنکرانی کی رائے:
حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی ۲۰۰۲ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں :
''راہ ولایت میں شہید ہونے والی اس سب سے پہلی اور عظیم شخصیت کی شہادت کی یاد منانا مقام ولایت سے تجدید عہد کرنا ہے جس کے ذریعے سے دین خدا کامل اور نعمت پروردگار انتہا تک پہنچی ہے.......
یہاں پہ میں اس نکتہ کا تکرار کرنا لازم سمجھتا ہوں کہ ان ایام کی تعظیم اور مجالس عزا برپا کرنا امام خمینی کی مسلّمہ اور عملی سیرت ہے جس کا مسئلہ وحدت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مسئلہ وحدت جس کی امام خمینی اور آیت اللہ بروجردی قدس سرّھما نے تاکید فرمائی اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ شیعہ اپنے مسلمہ عقائد کے بارے میں سکوت یا ان سے چشم پوشی کر لیں. بلکہ تمام مسلمانوں کا عالمی استکبار کے مقابلے میں متحد ہونا ہے جو سپرپاور ہونے کا دعویٰ کر رہا اور صہیونیوں کی پیروی میں اسلام کی بنیادوںکو مسمار
کرنے کی فکر میں مشغول ہے۔
تین جمادی الثانی حکومت اسلامی کی طرف سے سرکاری چھٹی کا دن ہے اس دن شیعوں کو چاہیے کہ وہ عزاداری کے جلوس لے کر گلیوں اور سڑکوں پرنکلیں تاکہ یوں اس شہیدہ کا حق کسی حد تک ادا کر سکیں۔
اسی طرح ۲۰۰۱ئ میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: ''یہ درست ہے کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی مسئلہ وحدت پر بہت زور دیتے تھے لیکن ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ شیعہ اپنے یقینی اور محکم عقائد سے دستبردار ہوجائیں۔
امام جمعہ زاہدان کی رائے:
مولوی عبد الحمید امام جمعہ زاہدان نے سترہ بہمن ۲۰۰۶ئ نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا: ''جس کسی کے پاس جو بھی استدلال ہے اسے عقل و منطق کی روشنی میں بیان کرے اور اس پر کسی کو شکوہ نہیں ہے لیکن مقدسات کی توہین کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور جو بھی اسے جائز سمجھے تو یہ نص قرآن و سنت کے خلاف ہے. ہمیں چاہیے کہ یہودو نصاریٰ کے مقدسات کی بھی توہین و بے احترامی نہ کریں۔