مقدمۂ مؤلف
الحمد للّٰه ربّ العٰلمین و الصلاة والسلام علی سیدنا محمد و آله الطاهرین ۔
علمائے اہل سنت عرصہ دراز سے شیعہ عقائد و ثقافت پر پے در پے سوالات و اعتراضات کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن جزیرة العرب میں وہابیت کے ظہور سے اس فکر میں خاصی تبدیلی آئی ہے ، خاص طور پر انقلاب اسلامی ایران کی فتح کے بعد جدید ترین طرز اور ڈش و انٹرنیٹ کے استعمال سے اس فکر نے وسیع پیمانے پر وسعت پائی ہے۔
آخری سالوں میں تواس فکر نے اس قدر نمایاں وسعت پائی کہ عام افراد سے بڑھ کر کالج و یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس اور اساتیذبلکہ کاروان حج کے معلمین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اگرچہ ان میں سے اکثر شبہات تہمت، جھوٹ، جہل یا نادانی کا نتیجہ ہیں لیکن یہ امر اساتیذ و محققین کے جواب دینے کی ذمہ داری میں کمی کا باعث نہیں بنتا۔
چونکہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے دشمن ہرگز یہ تصوربھی نہیں کر سکتے تھے کہ ملت ایران شیعہ ثقافت کے بل بوتے پر اس قدر ابھر کر سامنے آجائے گی اور پھر خالی ہاتھ مگر دل میں اسلام و تشیع سے عشق و ایمان کا جذبہ لئے ہوئے ایک ایسی حکومت جو اسلحہ سے لیس اور جسے شرق و غرب کی حمایت حاصل ہو اس کا تختہ الٹ کر شیعہ فقہ کی بنیاد پر اسلامی حکومت قائم کرلے گی۔