اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا ۴۳
کوچ ۴۴
ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا ۴۵
ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں ۴۶
یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں ۴۷
دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم ۴۸
مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا ۴۹
ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا ۵۰
روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے ۵۱
شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں ۵۲
محبت کی ایک نظم ۵۳
جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا ۵۴
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں ۵۵
سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں ۵۶
ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف ۵۷
شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے ۵۸