شبنم اور ستارے
اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
ہر صبح نئے تجھ کو میسر ہیں نظارے
*
کیا جانیے ، تو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے
جو بن کے مٹے، ان کے نشاں دیکھ چکی ہے
*
زہرہ نے سنی ہے یہ خبر ایک ملک سے
انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے
*
کہہ ہم سے بھی اس کشور دلکش کا فسانہ
گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ
*
اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کی
گلشن نہیں ، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
*
آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر
بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر
*
کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے
ننھا سا کوئی شعلۂ بے سوز کلی ہے
*