9%

شبنم اور ستارے

اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے

ہر صبح نئے تجھ کو میسر ہیں نظارے

*

کیا جانیے ، تو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے

جو بن کے مٹے، ان کے نشاں دیکھ چکی ہے

*

زہرہ نے سنی ہے یہ خبر ایک ملک سے

انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے

*

کہہ ہم سے بھی اس کشور دلکش کا فسانہ

گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ

*

اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کی

گلشن نہیں ، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی

*

آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر

بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر

*

کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے

ننھا سا کوئی شعلۂ بے سوز کلی ہے

*