غلام قادر رہیلہ
رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
*
دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے
*
بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی!
شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے
*
بنایا آہ! سامان طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے
*
لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے
رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے
*
یونہی کچھ دیر تک محو نظر آنکھیں رہیں اس کی
کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے
*
کمر سے ، اٹھ کے تیغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے
*