تضمین بر شعر ابوطالب کلیم
خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس
کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں
*
جس سے تیرے حلقۂ خاتم میں گردوں تھا اسیر
اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں
*
وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح
ہو گئی ہے اس سے اب ناآشنا تیری جبیں
*
دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا
وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں
*
تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے
ہے وہی باطل ترے کاشانۂ دل میں مکیں
*
غافل! اپنے آشیاں کو آ کے پھر آباد کر
نغمہ زن ہے طور معنی پر کلیم نکتہ بیں
*
""سرکشی باہر کہ کردی رام او باید شدن،
شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی ، آنجا نشیں‘‘
***