9%

شبلی و حالی

مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا

دیوان جزو و کل میں ہے تیرا وجود فرد

*

تیرے سرود رفتہ کے نغمے علوم نو

تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد

*

پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی

نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد

*

مردان کار، ڈھونڈ کے اسباب حادثات

کرتے ہیں چارۂ ستم چرخ لاجورد

*

پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ راز دار

کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد

*

مسلم مرے کلام سے بے تاب ہو گیا

غماز ہو گئی غم پنہاں کی آہ سرد

*

کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں

اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد

*