شبلی و حالی
مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا
دیوان جزو و کل میں ہے تیرا وجود فرد
*
تیرے سرود رفتہ کے نغمے علوم نو
تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد
*
پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی
نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد
*
مردان کار، ڈھونڈ کے اسباب حادثات
کرتے ہیں چارۂ ستم چرخ لاجورد
*
پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ راز دار
کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد
*
مسلم مرے کلام سے بے تاب ہو گیا
غماز ہو گئی غم پنہاں کی آہ سرد
*
کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں
اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد
*