9%

شعاع_آفتاب

صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی

آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھی

*

میں نے پوچھا اس کرن سے ""اے سراپا اضطراب!

تیری جان نا شکیبا میں ہے کیسا اضطراب

*

تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں

کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں

*

یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ

رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ""؟

*

""خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں

پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں

*

مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے

جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے

*

برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں

مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں

*