شعاع_آفتاب
صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی
آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھی
*
میں نے پوچھا اس کرن سے ""اے سراپا اضطراب!
تیری جان نا شکیبا میں ہے کیسا اضطراب
*
تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں
کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں
*
یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ
رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ""؟
*
""خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں
پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں
*
مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے
جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے
*
برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں
مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں
*