عرفی
محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے
تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی
*
فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی
میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی
*
مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی
نہیں ہنگامۂ عالم میں اب سامان بیتابی
*
مزاج اہل عالم میں تغیر آگیا ایسا
کہ رخصت ہو گئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی
*
فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے
نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی
*
کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر
گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی
*
صدا تربت سے آئی ""شکوۂ اہل جہاں کم گو
نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی
*
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی""
***