نانک
قوم نے پیغام گو تم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
*
آہ! بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
*
آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
*
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
*
آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
*
برہمن سرشار ہے اب تک مۂ پندار میں
شمع گو تم جل رہی ہے محفل اغیار میں
*
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا
*