9%

پھولوں.کی.شہزادی

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں

رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں میں

*

تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی

نگہ فردوس در دامن ہے میری چشم حیراں میں

*

سنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی

کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں

*

کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل

چھپا کر اپنے دامن میں برنگ موج بو لے چل

*

کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی

درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر

*

مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی

نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر

*

پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک

کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشیں بن کر

*

نظر اس کی پیام عید ہے اہل محرم کو

بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پیہم کو

***