پھول
تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صد چاک بلبل کی
تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے
*
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
*
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے
انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
*
تنک بخشی کو استغنا سے پیغام خجالت دے
نہ رہ منت کش شبنم نگوں جام وسبو کر لے
*
نہیں یہ شان خود داری ، چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے ، کوئی زیب گلو کر لے
*
چمن میں غنچۂ گل سے یہ کہہ کر اڑ گئی شبنم
مذاق جور گلچیں ہو تو پیدا رنگ و بو کر لے
*
اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا
جہان رنگ و بو سے، پہلے قطع آرزو کر لے
*
اسی میں دیکھ ، مضمر ہے کمال زندگی تیرا
جو تجھ کو زینت دامن کوئی آئینہ رو کر لے
***