سرمایہ.ومحنت
بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات
*
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
*
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
*
ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
*
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
*
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
سکرکی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات
*
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
*