نمود صبح
ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار
صبح یعنی دختر دوشیزۂ لیل و نہار
*
پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر
کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار
*
آسماں نے آمد خورشید کی پا کر خبر
محمل پرواز شب باندھا سر دوش غبار
*
شعلۂ خورشید گویا حاصل اس کھیتی کا ہے
بوئے تھے دہقان گردوں نے جو تاروں کے شرار
*
ہے رواں نجم سحر ، جیسے عبادت خانے سے
سب سے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار
*
کیا سماں ہے جس طرح آہستہ آہستہ کوئی
کھینچتا ہو میان کی ظلمت سے تیغ آب دار
*
مطلع خورشید میں مضمر ہے یوں مضمون صبح
جیسے خلوت گاہ مینا میں شراب خوش گوار
*