27%

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی

اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

*

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل

عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

*

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

*

عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل

عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی

*

شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی

تو ہے زناری بت خانۂ ایام ابھی

*

عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی

ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی

*

سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات

تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی

*

ابر نیساں! یہ تنک بخشی شبنم کب تک

مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی

*