نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
*
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
*
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
*
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
*
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زناری بت خانۂ ایام ابھی
*
عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی
*
سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی
*
ابر نیساں! یہ تنک بخشی شبنم کب تک
مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
*