پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو
پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو
*
تو خاک کی مٹھی ہے ، اجزا کی حرارت سے
برہم ہو، پریشاں ہو ، وسعت میں بیاباں ہو
*
تو جنس محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری
کم مایہ ہیں سوداگر ، اس دیس میں ارزاں ہو
*
کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لے تیری
تو نغمۂ رنگیں ہے ، ہر گوش پہ عریاں ہو
*
اے رہرو فرزانہ! رستے میں اگر تیرے
گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو
*
ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی
مقصد ہے اگر منزل ، غارت گر ساماں ہو
***