18%

پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو

پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو

غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو

*

تو خاک کی مٹھی ہے ، اجزا کی حرارت سے

برہم ہو، پریشاں ہو ، وسعت میں بیاباں ہو

*

تو جنس محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری

کم مایہ ہیں سوداگر ، اس دیس میں ارزاں ہو

*

کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لے تیری

تو نغمۂ رنگیں ہے ، ہر گوش پہ عریاں ہو

*

اے رہرو فرزانہ! رستے میں اگر تیرے

گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو

*

ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی

مقصد ہے اگر منزل ، غارت گر ساماں ہو

***