تضمین بر شعر انیسی شاملو
ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں
محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی
*
دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں
میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی
*
ابھی نا آشنائے لب تھا حرف آرزو میرا
زباں ہونے کو تھی منت پذیر تاب گویائی
*
یہ مرقد سے صدا آئی ، حرم کے رہنے والوں کو
شکایت تجھ سے ہے اے تارک آئین آبائی!
*
ترا اے قیس کیونکر ہو گیا سوز دروں ٹھنڈا
کہ لیلی میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی
*
نہ تخم "لا الہ" تیری زمین شور سے پھوٹا
زمانے بھر میں رسوا ہے تری فطرت کی نازائی
*
تجھے معلوم ہے غافل کہ تیری زندگی کیا ہے
کنشتی ساز، معمور نوا ہائے کلیسائی
*