پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے
کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے
*
""الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے
کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے""
*
تجھے وہ شاخ سے توڑیں! زہے نصیب ترے
تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے
*
اٹھا کے صدمۂ فرقت وصال تک پہنچا
تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا
*
مرا کنول کہ تصدق ہیں جس پہ اہل نظر
مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر
*
کبھی یہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا
کسی کے دامن رنگیں سے آشنا نہ ہوا
*
شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے
فسردہ رکھتا ہے گلچیں کا انتظار اسے
***