27%

شکوہ

کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

*

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

*

جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

*

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

*

ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

*

اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

*

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم

پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم

*