شکوہ
کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
*
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
*
جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
*
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
*
ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
*
اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
*
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
*