چاند
اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے
طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے
*
یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغ آرزو ہے؟
*
میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تو فلک پر
تجھ کو بھی جستجو ہے ، مجھ کو بھی جستجو ہے
*
انساں ہے شمع جس کی ، محفل وہی ہے تیری؟
میں جس طرف رواں ہوں ، منزل وہی ہے تیری؟
*
تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں
پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں
*
استادہ سرو میں ہے ، سبزے میں سو رہا ہے
بلبل میں نغمہ زن ہے ، خاموش ہے کلی میں
*
آ ! میں تجھے دکھاؤں رخسار روشن اس کا
نہروں کے آئنے میں شبنم کی آرسی میں
*
صحرا و دشت و در میں ، کہسار میں وہی ہے
انساں کے دل میں ، تیرے رخسار میں وہی ہے
***