(۲)شاعر
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
*
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں
عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
*
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو
تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو
*
برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
دیکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے!
*
صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری
آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل میری
*
عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو
اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کا
*
ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں
***