9%

(۲)شاعر

میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں

چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں

*

دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں

عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں

*

مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو

تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو

*

برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے

دیکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے!

*

صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری

آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل میری

*

عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو

اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کا

*

ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں

تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں

***