بزم انجم
سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو
طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
*
پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور
قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
*
محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی
چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے
*
وہ دور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے
کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں "تارے"
*
محو فلک فروزی تھی انجمن فلک کی
عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی
*
اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!
تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری
*
چھیڑو سرود ایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے
رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں تمھاری
*