سیر فلک
تھا تخیل جو ہم سفر میرا
آسماں پر ہوا گزر میرا
*
اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی
جاننے والا چرخ پر میرا
*
تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے
راز سر بستہ تھا سفر میرا
*
حلقۂ صبح و شام سے نکلا
اس پرانے نظام سے نکلا
*
کیا سناؤں تمھیں ارم کیا ہے
خاتم آرزوئے دیدہ و گوش
*
شاخ طوبی! پہ نغمہ ریز طیور
بے حجابانہ حور جلوہ فروش
*
ساقیان جمیل جام بدست
پینے والوں میں شور نوشانوش
*