انسان
منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا
محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے
*
رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو
فطرت ہی صنوبر کی محروم تمنا ہے
*
تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے
*
اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرہ نہیں ، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
*
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے ، بینا ہے ، توانا ہے
***