غرۂ شوال
یا
ہلال عید
غرۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
*
تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
شام تیری کیا ہے ، صبح عیش کی تمہید ہے
*
سرگزشت ملت بیضا کا تو آئینہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
*
جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم
*
تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے
حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے
*
آشنا پرور ہے قوم اپنی ، وفا آئیں ترا
ہے محبت خیز یہ پیراہن سیمیں ترا
*