ستارہ
قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو
مآل حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟
*
متاع نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو
ہے کیا ہراس فنا صورت شرر تجھ کو؟
*
زمیں سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو
مثال ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو
*
غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے!
تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے
*
چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے
جو اوج ایک کا ہے ، دوسرے کی پستی ہے
*
اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادت مہر
فنا کی نیند مے زندگی کی مستی ہے
*
وداع غنچہ میں ہے راز آفرینش گل
عدم ، عدم ہے کہ آئینہ دار ہستی ہے!
*
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
***