مسلم
(جون۱۹۱۲ء)
ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے
سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
*
نغمۂ امید تیری بربط دل میں نہیں
ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے محمل میں نہیں
*
گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا
اور دل ہنگامۂ حاضر سے بے پروا ترا
*
قصۂ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں
اہل محفل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں
*
اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ
ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ
*
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دو شینہ ہوسکتی نہیں
*
ہم نشیں! مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
*