حضور رسالت مآب میں
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا
*
قیود شام وسحر میں بسر تو کی لیکن
نظام کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا
*
فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو
حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو
*
کہا حضور نے ، اے عندلیب باغ حجاز!
کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز
*
ہمیشہ سرخوش جام ولا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرت سجود نیاز
*
اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز
*
نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
*