شفاخانۂ حجاز
اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا
کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانۂ حجاز
*
ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار
سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز
*
دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف
مشہور تو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز
*
دارالشفا حوالی لبطحا میں چاہیے
نبض مریض پنجۂ عیسی میں چاہیے
*
میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات
پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں
*
تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مل گیا
پایا نہ خضر نے مے عمر دراز میں
*
اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں
*
آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا
رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا!
***