9%

شفاخانۂ حجاز

اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا

کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانۂ حجاز

*

ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار

سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز

*

دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف

مشہور تو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز

*

دارالشفا حوالی لبطحا میں چاہیے

نبض مریض پنجۂ عیسی میں چاہیے

*

میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات

پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں

*

تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مل گیا

پایا نہ خضر نے مے عمر دراز میں

*

اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی

میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں

*

آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا

رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا!

***