9%

جواب شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

*

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے

*

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا

آسماں چیر گیا نالۂ فریاد مرا

*

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !

بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !

*

چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

*

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

*

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !

*