جواب شکوہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
*
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے
*
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ فریاد مرا
*
پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !
بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !
*
چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !
*
کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
*
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !
*