گورستان شاہی
آسماں ، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے
کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے
*
چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
*
کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
*
باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
*
آہ! جولاں گاہ عالم گیر یعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار
*
زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے
یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے
*
اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے
کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے
*
ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں
ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں
*