9%

گورستان شاہی

آسماں ، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے

کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے

*

چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں

صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں

*

کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی

بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی

*

باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے

اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے

*

آہ! جولاں گاہ عالم گیر یعنی وہ حصار

دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار

*

زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے

یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے

*

اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے

کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے

*

ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں

ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں

*