شاعر
جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
پی کے شراب لالہ گوں مے کدۂ بہار سے
*
مست مے خرام کا سن تو ذرا پیام تو
زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے
*
پھرتی ہے وادیوں میں کیا دختر خوش خرام ابر
کرتی ہے عشق بازیاں سبزۂ مرغزار سے
*
جام شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے
پست و بلند کر کے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے
*
شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
*
شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری
*
اہل زمیں کو نسخۂ زندگی دوام ہے
خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
*
گلشن دہر میں اگر جوئے مے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو
***