9%

شاعر

جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے

پی کے شراب لالہ گوں مے کدۂ بہار سے

*

مست مے خرام کا سن تو ذرا پیام تو

زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے

*

پھرتی ہے وادیوں میں کیا دختر خوش خرام ابر

کرتی ہے عشق بازیاں سبزۂ مرغزار سے

*

جام شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے

پست و بلند کر کے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے

*

شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری

ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری

*

شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں

کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری

*

اہل زمیں کو نسخۂ زندگی دوام ہے

خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری

*

گلشن دہر میں اگر جوئے مے سخن نہ ہو

پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو

***