نو ید صبح
۱۹۱۲ء
آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر
*
محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت
*
چہچہاتے ہیں پرندے پا کے پیغام حیات
باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرام حیات
*
مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو
*
وسعت عالم میں رہ پیما ہو مثل آفتاب
دامن گردوں سے نا پیدا ہوں یہ داغ سحاب
*
کھینچ کر خنجر کرن کا ، پھر ہو سرگرم ستیز
پھر سکھا تاریکی باطل کو آداب گریز
*
تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عریانی تجھے
اور عریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے
*
ہاں ، نمایاں ہو کے برق دیدۂ خفاش ہو
اے دل کون و مکاں کے راز مضمر! فاش ہو
***