9%

نو ید صبح

۱۹۱۲ء

آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر

منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر

*

محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت

دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت

*

چہچہاتے ہیں پرندے پا کے پیغام حیات

باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرام حیات

*

مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو

وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو

*

وسعت عالم میں رہ پیما ہو مثل آفتاب

دامن گردوں سے نا پیدا ہوں یہ داغ سحاب

*

کھینچ کر خنجر کرن کا ، پھر ہو سرگرم ستیز

پھر سکھا تاریکی باطل کو آداب گریز

*

تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عریانی تجھے

اور عریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے

*

ہاں ، نمایاں ہو کے برق دیدۂ خفاش ہو

اے دل کون و مکاں کے راز مضمر! فاش ہو

***