کلی
جب دکھاتی ہے سحر عارض رنگیں اپنا
کھول دیتی ہے کلی سینۂ زریں اپنا
*
جلوہ آشام ہے یہ صبح کے مے خانے میں
زندگی اس کی ہے خورشید کے پیمانے میں
*
سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے
کس قدر سینہ شگافی کے مزے لیتی ہے
*
مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب
بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بے تاب
*
تیرے جلوے کا نشیمن ہو مرے سینے میں
عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں
*
زندگی ہو ترا نظارہ مرے دل کے لیے
روشنی ہو تری گہوارہ مرے دل کے لیے
*
ذرہ ذرہ ہو مرا پھر طرب اندوز حیات
ہو عیاں جوہر اندیشہ میں پھر سوز حیات
*