33%

کلی

جب دکھاتی ہے سحر عارض رنگیں اپنا

کھول دیتی ہے کلی سینۂ زریں اپنا

*

جلوہ آشام ہے یہ صبح کے مے خانے میں

زندگی اس کی ہے خورشید کے پیمانے میں

*

سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے

کس قدر سینہ شگافی کے مزے لیتی ہے

*

مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب

بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بے تاب

*

تیرے جلوے کا نشیمن ہو مرے سینے میں

عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں

*

زندگی ہو ترا نظارہ مرے دل کے لیے

روشنی ہو تری گہوارہ مرے دل کے لیے

*

ذرہ ذرہ ہو مرا پھر طرب اندوز حیات

ہو عیاں جوہر اندیشہ میں پھر سوز حیات

*