چاند اور تارے
ڈرتے ڈرتے دم سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
*
نظارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
*
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا ، مدام چلنا
*
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں، نہیں ہے
*
رہتے ہیں ستم کش سفر سب
تارے، انساں، شجر، حجر سب
*
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا
*
کہنے لگا چاند ، ہم نشینو
اے مزرع شب کے خوشہ چینو!
*